قلندر بابا اولیاء رحمتہ الله علیہ کے مورث اعلیٰ حضرت فضیل مہدی سرزمین عرب کو چھوڑ کر خطہ مدراس میں وارد ہوئے - ان کے دو صاحبزادگان تھے - حضرت حسین مہدی رکن الدین اور حضرت حسن مہدی جلال الدین - اول الذکر حضور قلندر بابا اولیاؒء کے دادھیالی جد تھے اور موخر الذکر ننھیالی جد -
چنانچہ بعد کے دادھیالی بزرگوں کے نام کے ساتھ حسین مہدی اور ننھیالی بزرگوں کے ساتھ حسن مہدی ضرور ہوتا تھا - اس روایت کو تاج الدین بابا اولیاءؒ نے جو آپ کے ننھیالی بزرگ تھے ، ترک کردیا -
بابا تاج الدین نے شادینہیں کی تھی لیکن آپ نے قلندر بابا اولیاؒء کی والدہ محترمہ حضرت سعیدہ کو اپنی بیٹی بنا کر پرورش کیا - قلندر بابا اولیاؒء اسی نسبت سے بابا تاج الدینؒ کو نانا کہا کرتے تھے -
الله تعالیٰ کے مقرب بندوں کو جب سیدنا حضورعلیہ الصلوٰة والسلام روحانی طور پر تعلیمات دے کر فارغ کرتے ہیں تو ایک نام عطا فرماتے ہیں اور بعد میں اسی نام سے یاد فرماتے ہیں -
قلندر بابا اولیاؒء کو آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے"حسن اخریٰ " نام عطا فرمایا - اس نام کی مناسبت قلندر بابا اولیاؒء کے ننھیالی جدی نام " حسن مہدی " سے بھی ہے -
قلندر بابا اولیاؒء نے بابا تاج الدینؒ سے نو سال تک روحانی تعلیم حاصل کی - بابا تاج الدین ناگپوریؒ نے 17 اگست 1925ء کو اس دنیا سے پردہ فرمایا - وصال سے پہلے انہوں نے قلندر بابا اولیاؒء سے فرمایا کہ میرے بعد یہاں قیام نہ کرنا چنانچہ نانا کے پردہ کرنے کے بعد انہوں نے ناگپور جانا ترک کردیا -
آپ کو شاعری کے علاوہ پنجہ کشی اور شطرنج کھیلنے کا شوق تھا - شطرنج میں ان سے جیتنا محال تھا - قلندر بابااولیاؒء کو شطرنج کے دو سو نقشوں اور چار سو ضمنی نقشوں پر عبور تھا -
دہلی میں شطرنج کے دو مانے ہوئے استاد آپ کے پاس حاضر ہوتے تھے - ان میں سے ایک ذرا شوخ تھا - وہ اکثر آپؒ سے کھیلنے کی کوشش کرتا تو دوسرا کہتا کہ جب تمہیں معلوم ہے کہ تم چند چالوں سے زیادہ ٹھہر نہیں سکتے تو کیوں بار بار کھیلنے کی ضد کرتے ہو - وہ کہتا کہ اگر میں ان سے نہیں کھیلوں گا تو سیکھوں گا کیسے -
ایک مرتبہ وہ آپؒ کے ساتھ کھیل رہا تھا ، آپؒ نے چند چالوں کے بعد فرمایا کہ چوالیسویں چال کا تمہارے پاس کیا توڑ ہے - تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد وہ بولا اچھا دوسری بازی لگاتے ہیں -
آپؒ ( حضور قلندر بابا اولیاؒء) نے ایک واقعہ بتایا - دہلی میں شطرنج کے آٹھ استاد تھے - ایک کا انتقال ہوگیا - اسی زمانے میں یورپ سے ایک کھلاڑی نے آکر دہلی والوں کو مقابلے کی دعوت دی -
سات استادوں نے فیصلہ کیا کہ جو کھلاڑی اس انگریز کو ہرا دے گا وہ آٹھواں استاد تسلیم کرلیا جائے گا - حکیم اجمل خان کا شمار بھی دہلی کے اچھے کھلاڑیوں میں ہوتا تھا - لیکن وہ اس مقابلے کی ہمت پیدا نہ کرسکے
چنانچہ انہوں نےاپنے بھتیجے حکیم محمّد احمد کے ذریعے آپؒ سے درخواست کی کہ یہ مقابلہ آپؒ کریں - مقررہ دن اور وقت پر مقابلہ شروع ہوا - اس نے شروع ہی سے تیز چالیں چلنا شروع کردیں - آپؒ نے اس کے فیل کو گھیر کر مار دیا -
فیل کا اٹھنا تھا کہ اس کی تو بساط ہی الٹ گئی اور وہ بازی ہار گیا - بعد میں آپ نے بتایا کہ میں یہ سمجھ چکا تھا کہ اس انگریز نے فیل کی چالوں میں مہارت حاصل کر رکھی ہے چنانچہ میں نے سوچا کہ اگر اس کا فیل مار دیا جائے تو یہ حوصلہ ہار جائے گا چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا -
انؒ سے پوچھا گیا کہ آپؒ کو یہ اندازہ کیسے ہوا کہ یہ شخص فیل کی چالوں کا ماہر ہے - آپؒ نے فرمایا جب وہ میرے سامنے بیٹھ کر چالوں پر غور کر رہا تھا تو میں نے اس کے گلے میں ایک زنجیر پڑی دیکھی اس زنجیر کے ساتھ ایک چھوٹا سا ہاتھی کا ماڈل لٹک رہا تھا - اس سے مجھے یہ خیال گزرا کہ یہ فیل کی چالوں کا ماہر ہے -
ایک دفعہ ناظم آباد میں ایک صاحب ملنے آئے - کہنے لگے میں نے سنا ہے کہ آپؒ شطرنج بہت اچھی کھیلتے ہیں - آپؒ نے فرمایا کہ عرصہ ہوا میں نے شطرنج کھیلنا چھوڑ دیا ہے - لیکن وہ مصر ہوگئے -
آپؒ نے فرمایا اچھا میں اپنا وزیر اور دونوں رخ اٹھا لیتا ہوں اب آپ کسی بھی پیادہ پر انگلی رکھ دیں میں اس سے آپ کو پیدلی مات دیدوں گا - وہ بے چارے شرمندہ ہوکر چلے گئے -
تحریر ...احمد جمال عظیمی روحانی ڈائجسٹ ... جنوری 1995ء
http://iazeemi.com/about-us/
ReplyDeleteThe Azeemia Sufi order was founded in Pakistan in 1960 by Qalander BaBa Auliya, strengthened & currently headed by Khwaja Shamsuddin Azeemi.
Khwaja Shamsuddin Azeemi
“At first the Spiritual Master makes you aware of your own Self, a treasure that resides within you; then he opens the door of that treasure.”
http://iazeemi.com